جاناں
Poet: توصیف احمد کشافؔ By: توصیف احمد کشافؔ, Lahore۔۔۔۔۔۔۔جاناں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محبت زرد رۤت بھی ہے
بس بہار نہیں ہے یہ
یہ تو مار بھی دیتی ہے
صف قرار نہیں ہے یہ
محبت۔۔۔۔۔۔۔
محبت میں نے کی ہے ہاں
بس! تمہی سے کی ہے ناں
تمہٰیں میں ربّ نہیں کہتا
مگر پوجا ہے تجھے جاں
سنو۔۔۔۔۔۔
سنو یہ حق ہے میرا ناں؟
تمہی نے خود ہے دیا جو
تمہیں جو دیکھوں تو میں ہی
تمہیں جو سوچوں تو میں ہی
تمہیں جو چاہوں تو میں ہی
تمہیں جو پاوؑں تو میں ہی
تمہارے سارے جذبوں پہ
تمہارے سارے خوابوں پہ
تمہارے ساری سوچوں پہ
جو چھاؤں تو میں ہی
تم سے وعدہ بھی کروں میں
جو نبھاؤں تو میں ہی
دیکھو۔۔۔۔۔۔
دیکھو برداشت نہیں ہوتا
کوئی تم کو دیکھے بھی
کسی شخص کا چھونا کیا
ہوا تم کو چھوۓ بھی
مرضی ہے۔۔۔۔۔۔۔
مرضی ہے تمہاری جو
جو چاہے دل، سو کر لو
تمہی اک اپنے ہو سب سے
تمہی کو دکھ سنانا تھا
تمہی کو سب بتانا تھا
مگر۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر اس کا نہین مطلب
تم خوشی مِری دیکھو
جاؤ! تمہیں حق دیا ہے
جو چاہو ، سو کر لو
چاہو تو زندگی دے دو
چاہے تو موت مِری کر دو
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






