زخموں کا میرے کچھ تو مداوا کیا کرو مُجھ سے میرے حبیب گُزارا کیا کرو اتنا ستم، کہ ہم سے اب منہ موڑ بیٹھے ہو ہم سے نہ اسقدر بھی کنارہ کیا کرو لمبی بہت ہیں، تیری جُدائی کی راتیں جانے سے پہلے کچھ تو اشارہ کیا کرو