اک پل میں ہی اکثر رستے بدل جایا کرتے ہیں
منزل پر پہنچ کر ہمسفر چھوٹ جایا کرتے ہیں
عجب ہے یہ محبت کا دستور بھی نور
جو نا ہو مقدر میں وہی کیوں راس آیا کرتے ہیں
جب سے منہ موڑ لیا مجھ سے میری خوشیوں نے
تیرے لیے میرے جذبات مجھے بہت ستایا کرتے ہیں
جتنا بھی چاہوں کہ تجھ کو بھول جاؤں میں
تیرے ساتھ کہ پل اور بھی رولایا کرتے ہیں
اک زمانہ گزر گیا تجھ سے بچھڑے ہوئے مجھے
وہ حسین پل آج بھی میرا دل جلایا کرتے ہیں
نہ جانے کس امید پر آس لگائے بیٹھا ہے یہ دل
جانتے ہوئے بھی گزرئے زمانے کب لوٹ کے آیا کرتے ہیں