جانے کس کی مراد تھی اور کس کو ملا ہے تو
کسی کا شکر بنا اور کسی کا شکوہ گلا ہے تو
کچھ گناہ کبائر تھے کہ تجھے کھو بیٹھے ہم
اور کسی کو زہد کا سلہ ہے تو
ہم کو نہیں کسی کارواں سے غرض
میسر جو ہو،تنہا ہی قافلہ ہے تو
تجھے دیکھتے ہی الفاظ ٹوٹنے لگتے ہیں
جیسے میری زبان میں آبلہ ہے تو
نشیلی آنکھیں، لالی پڑے رخسار اور یہ خد و خال
جیسے مہکتے گلابوں کا سلسلہ ہے تو
عشق میں اس موڑ پہ ہیں جہاں سے لوٹا نہ جائے
عبد" کی زندگی کا آخری فیصلہ ہے تو"