جب اُس نے اپنی خفگی کو بیاں کردیا ہے
ہم نے ہر عذاب کو بے زباں کردیا ہے
مجھے جبلی بندشیں تراشتی ہیں بہت
لیکن بے پرواہی نے تو انسان کردیا ہے
لوگ جوھری سے اتنے فتنہ انگیز نہیں ہوتے
انہیں حالات کی رغبت نے پریشان کردیا ہے
حیات تو ترغیب سے اتنی غافل نہیں مگر
قسمت نے کس کس کو ناگہان کردیا ہے
دنیا سے کٹے لوگوں کو اپنے ساتھ جوڑ کر
تم نے اپنی خودی کو عیاں کردیا ہے
عمیق چل پڑے تھے وہ بے تجربہ لوگ
آج عشق کو انہوں نے ایمان کردیا ہے