جب بھی تصویر تیری میرے ذہن سے نکلے
میری خواہش ہے کہ یہ جان بدن سے نکلے
شوخ کلیوں پے گلابوں پے بہار آجائے
مسکراتے ہوئے جب بھی وہ چمن سے نکلے
حسنُ کو تیرے نکھاروں میں میرے مصرو میں
تیری تصویر میرے قیمتی فن سے نکلے
سادگی میں بھی قیامت کا شباب آجائے
سر پے آنچل لیے جب بھی وہ صحن سے نکلے