جب بھی دیتا ہے وہ کچھ مجھے تو سزا دیتا ہے
پر اس کی چاہت میں تڑپنا بھی مزا دیتا ہے
جب کبھی کھولتا ہے وہ سرشام زلفیں اپنی
تو پھر اس کا چلنا تو فضاؤں کو نشہ دیتا ہے
اس کی آنکھوں میں ہے شاید جھیلوں کی سی گہرائی
کہ دیکھنے والا تو بچانے کی صدا دیتا ہے
اس کی باتوں میں سحر ہے اسکی اداؤں میں نشہ ہے
ملنے والا تو اسے اپنی جان گنوا دیتا ہے
جو بھی دیکھے اسے ساجد اسکا دیوانہ ہو جائے
مرنے والا بھی اسے جینے کی دعا دیتا ہے