جب تلک خاک یہ تسلیم نہیں ہو سکتی
کسی صورت تری تعظیم نہیں ہو سکتی
تو اگر چاہے بدل سکتا ہے راہیں اپنی
میری سوچوں میں تو ترمیم نہیں ہو سکتی
میں نے سب راز زمانے کے چھپا لے دل میں
کیوں مری ذات یہ تسلیم نہیں ہو سکتی
اے مری جان مری روح کا ارمان نہ چھین
ایسا بھی کیا ہے کہ تفہیم نہیں ہو سکتی
اب میں سرحد کے جیالوں میں ہوں شامل وشمہ
اور اس ملک کی تقسیم نہیں ہو سکتی