جب تک اس کی جستجو میں تھا وہ مجھ سے دور تھا
بہت سمجھایا یقیں دلایا مگر تجھے سمجھ نہ آیا
وہ الوداع آخر پر پلٹ کے بھی نہ دیکھا
میں کتنا ٹرپا تھا تو نے یہ بھی نہ سوچا
میں دعا گو رھا ملے وہ جو حق میں ھو بہتر
پھر تو نئی راہ کا مسا فر میں قید تنہائی کا عادی
ماہ و سال تو اب گزر گئے اس قید تنہائی میں
اب مجھے عشق ھے تنہائ سے تجھے شوق ھے قربت کا
میں پھلے بھی وفا دار تھا اب بھی وفادار ھوں
مجھے تیری روح سے محبت ھے اپنی تنہائ سے عشق
روح کو قربت کی حاجت نہیں تنہائ سے جدائی ممکن نہیں
جا محبت کو بدنام نہ کر مجھ پر یہ احسان نہ کر
اب عشق کو یوں سر عام نہ کر
جب تک اس کی جستجو میں تھا وہ مجھ سے دور تھا