جب سے تم ہنسی نہیں
تب سے آسماں پے بجلی چمکی نہیں
چمن میں نہ بھول مہکے ہیں
گلشن میں نہ پرندے چہکے ہیں
باغ میں خشک سالی چھائی ہے
باغ میں نرم کلی مرجھائی ہے
گلستاں بھی سنسان پڑا ہے
انساں بھی حیران پڑا ہے
موسم کہتا ہے
آخر اتنا سِتم گر کون ہے
آخر اتنا خود غرض کون ہے
اک بار ہنس کر مجھے تو آزاد کر دو
گلستاں میں ہنس کر مجھے تو رونقیں آباد کر دو
میری گبھراہٹ نے جلا دیا ایسا جہاں
تیری مسکراہٹ نے سجا دیا ایسا سماں