جب سے تیرا شہر سنسان سا لگتا ہے
میرا ٹھہراؤ وہاں لامکان سا لگتا ہے
سبھی آنکھ چُراکر گذر جاتے ہیں
ہر چہرہ جیسے انجان سا لگتا ہے
بھری بھیڑ میں کہیں جنبش نہ ملی
کوئی خاموشیوں کا آستان سا لگتا ہے
تم گئے تو بہاروں نے رخ موڑلیئے
سارا موسم ابکہ خزاں سا لگتا ہے
نہ لوٹو گے تو کہاں لوٹیں گی پھر
انہیں خوشیوں کا مجھے ارمان سا لگتا ہے
شاید یہی حال تیرے حال کے بعد ہوئا
یہ وقت بھی سنتوشؔ بے ایمان سا لگتا ہے