جب سے تیری چاہت کی حدوں سے دور نکل گئی
میں خود کو بھی نہ پہچانی میری صورت بدل گئی
جب سے تیرا ذکر سَنا ہے دل کی حالت غیر ہوئی
میں نے تو یہ جانا تھا کہ میں قدرے سنبھل گئی
رسموں اور رواجوں کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی
ایک دیوانی اپنے دل کو اپنے ہاتھوں مسل گئی
آتے جاتے بچتے بچاتے کیچڑ والے رستے پہ
گِرتے گِرتے بچ تو گئی میں لیکن ذرا پھسل گئی
عظمٰی نرم ہوا کے ٹھنڈے جھونکے نے یہ اثر کیا ہے
کہ موسم کے بدلتے ہی طبیعت پھر سے مچل گئی