جب غموں کی بارش ٹوٹ پڑے
پھر بہار جل نہ آوے ہے
پھیلا ہے چار سو اندھیرا ہی اندھیرا
کوئی روشنی کا پیمانہ نہ چلاوے ہے
سب چھوڑ گئے سمندر کے طوفاں میں
کناروں پہ اب کوئی بھی بلاوے ہے
نہیں سنتا کوئی میرے دکھوں کے فسانے کو
سب اپنا اپنا دکھڑا سناوے ہے
ہر بار گرتا ہے عمر نشیب و فراز میں
کوئی مجھ کو نہ اس دلدل سے اٹھاوے ہے