جب قسمت میں ہی ہو مرنا تو کیا کریں
پھول سے ہاتھوں میں تلوار اٹھا لی اس نے
چولہے کے آگے جو بیٹھے تو رنگ ہوا سرخ
کہہ رہا ہے گل کچھ لائی چرائی اس نے
ہم تو سچا سمجھ کر گئے تھے اس کے پاس
کیا خبر تھی کہ ہر کام کیے جعلی اس نے
پھڑک پھڑک کے جان دے دی عاشق پرند نے شور تک نہ کیا
پاس سے اسے گزرا حسین صیاد جسے سمجھا قفس کو خالی اس نے
خدا گواہ ہے میں نے اس سے کچھ نہیں کہا
خبر نہیں کیا جی پر بات جانے لگا لی اس نے