جب پہلی بار اُسے دیکھا تھا
جب پہلی بار دیدار پایا تھا
دل نے بہتر محسوس کیا تھا
بے قراریوں نے قرار پایا تھا
اک لمحے میں چھین لیا گیا
جو صدیوں میں یار پایا تھا
اپنی مجبوریوں کے قصے سناتے گئے
اس طرح وہ دھوریاں بڑھاتے گئے
بھیجے تھے قافلے ارمانوں کے
ارمان میرے ہو کے زخمی آتے گئے
ہر دریا کے کنارے دریا تھا آزمائش کا
ہر کامیابی کے بعد مجھے آزماتے گئے
دعاؤں میں گر گرانے کا کیا فائدہ
جب کہ وہ ملاقات چاہتے ہی نہ تھے
ہمیں تمنا تھی صرف اُن کے وصال کی
مگر وہ ہمارا ساتھ چاہتے ہی نہ تھے
کہی سہارے ٹکڑا دیئے جن کی خاطر
وہ ہی ہمارا ہاتھ چاہتے ہی نہ تھے