جب کوئی تیر حوادث کی کماں سے آیا

Poet: فیصل By: فیصل, Lahore

جب کوئی تیر حوادث کی کماں سے آیا
نغمہ اک اور مرے مطرب جاں سے آیا

ایک نظارے نے میرے لیے آنکھیں بھیجیں
دل کسی کارگہہ شیشہ گراں سے آیا

جب بھی اس دل نے ترے قرب کی دولت چاہی
ایک سایہ سا نکل کر رگ جاں سے آیا

میں نہ ڈرتا تھا عناصر کی ستم کوشی سے
خوف آیا تو بس اک عمر رواں سے آیا

کیا کروں خلعت و دستار کی خواہش کہ مجھے
زیست کرنے کا سلیقہ بھی زیاں سے آیا

میں تو اک خواب کو آنکھوں میں لیے پھرتا تھا
یہ ستارہ مرے پہلو میں کہاں سے آیا

Rate it:
Views: 90
01 Sep, 2025