ہم کو تو عاشقی نے مراسم سکھا دئیے
اور ہم نے غم زمانے کے سارے مٹا دئیے
جب مل گیا تھا تجھ سے مقدر کا فلسفہ
تو ہم نے غم کے سارے ہی لمحے بھلا دئیے
اب کس طرح کروں بھلا شکوہ فراق کا
چہروں میں دوستوں کے جو دشمن ملا دئیے
میں قید ہوں زمانے کے رسم و رواج کی
زہریلے جام ہم کو جو سب نے پلا دئیے
اب رابطہ نہیں ہے کسی سے نہ سلسلہ
جتنے خطوط تھے سبھی ہم نے جلا دئیے