ہجر کا دن یہ ایسا ٹھہرا
جیسے قربِ ساعت کی خواہش میں وصلِ دید لبادہ اُوڑھے
میں کہ چپ ہو ں خود میں ایسے
جیسے بہا ر ہو رنجشوں کا بادہ اُوڑھے
اُتر رہی ہے اُس کی یا د اس غمِ ہجراں میں ایسے
میری خاموش محبت کالرزنا جیسے
جوتشِ ہجراں بجھ بھی جا کہ
سانسوں کا چلنا محال ہوا ایسے
اُس سے بچھڑے سال ہوا جیسے
مدتوں کے قُر ب میں یہ ساعتِ جدائی
بکھیر رہی ہے میری ذات میں تنہائی
قسم لے لو جانا ں جو سوئی ہوں رات بھر
یہ بھیگی تکیہ گاہ، اور بستر کی شکنیں
تپتے صحرا کی راہ گزر
آنکھیں جلتی رہی میری تمام رات
اب اور نشِمن نہیں جلا یا جاتا
میرے ساجن تجھے کسی طور نہیں بھلا یا جاتا
اب یہ ہجر کا دُکھ ختم بھی ہو
کہ میری بے چینی اس تپشِ رساں پہ ہے
میری جان توکہاں پر ہے
میں نے سانسو ں کی حرارت کو مقید کررکھا ہے
تو آئے گا تو یہ سرد آغوش تیری چاہت سے نم ہوگی
میری ذات تیرے جسم میں بھسم ہو گی
یو ں کہ شبِ ہجراں ،شبِ ناسورختم ہو گی