جفاوں نے کی انتہا بیٹھے بیٹھے
میں غم سے ہوئی آشنا بیٹھے بیٹھے
ہاں صبر و رضا ،عزم و ہمت کے بدلے
یہ دن ہو گئے ہیں سزا بیٹھے بیٹھے
اگر مجھ میں کوئی برائی نہیں ہے
تو کیوں دے گیا ہے دغا بیٹھے بیٹھے
جگر تھامتی ہوں تو دل چیختا ہے
یہ کس درد کی دی دوا بیٹھے بیٹھے
جدائی کے آنسو بھی دریا نما ہیں
میں وحشت میں ہوں مبتلا بیٹھے بیٹھے
جو پیچھے سے رنج و الم بھیجتا ہے
کرے گا وہ کیا سامنا بیٹھے بیٹھے
محبت میں کس کو محبت ملی ہے
مگر ہاں ملی ہے جفا بیٹھے بیٹھے
مرے حال پر اب نظر ہی نہیں ہے
کہاں کھو گیا بے وفا بیٹھے بیٹھے
تُو دردِ جگر کو بھلا آج وشمہ
تُو آنکھوں میں ہی مسکرا بیٹھے بیٹھے