مرے نازک من کے جزبے
لفظوں میں ڈھل کر نکھرے
ساحل کی سیپوں جیسے
خالی اور بکھرے بکھرے
ماٹی سے وابستہ ہیں
جزبے ہیں صاف اور ستھرے
غالب کے سروش کہاں اب
کیا غیب سے من پر اترے
سادہ سی اپنی باتیں
سادہ سے اپنے جزبے
مرے نازک من کے جزبے
لفظوں میں ڈھل کر نکھرے