جستجو مقصد ہو تو کھوج تڑپ اٹھتی ہے
عشق کی بے ساختہ ہر اوج تڑپ اٹھتی ہے
میرے کئی ایسے خواب جو خواب بھی نہ رہے
مگر ان کی سوچ میں سوچ تڑپ اٹھتی ہے
جینے کی کلا میں تازہ تاسف بشاش ہیں
پھر پرانے زخموں کی فوج تڑپ اٹھتی ہے
اچھائیوں میں اب بھی تکرار رہا ہے بہت
کہ ہر جگہ کیوں بوجھ تڑپ اٹھتی ہے
سنجیدگی ذہن کو بڑا شاداب رکھتی ہے مگر
کبھی کبھی آوارگی کی شوخ تڑپ اٹھتی ہے
ٹھہر گئی بھی جنبش تو کنکر نہ مارو انہیں
ہنگاموں کی یوں تو ہر موج تڑپ اٹھتی ہے