جسے ملنا نہ چاہیں تو خوابوں میں چلا آتا ہے
یونہی روح میں بس کر سانس کو رلا جاتا ہے
یوں تو دلگیر بھی پشت پناہی سے لوٹا تھا مگر
کوئی مفسد نہ ملا تو اپنے دامن کو گلہ دیتا ہے
جو شفاف نظاروں کو نظر کا دھوکا نہیں سمجھتا
وہ تو عبث مسافر اپنی راہیں رلا دیتا ہے
اس جہاں میں اس کو بھی مدبراں سمجھیں
جب کہ ایک حامی دلسوزی کو جلادیتا ہے
شکیبائی کی راہ گذاری ٹھکانہ ڈھونڈ لیتی ہے
بھٹکتا ہے وہ شخص جو حسرت کو ہوا دیتا ہے
کسی دکھ سہتے ہوئے نادری سے دیکھا کہ
اک فراق کے تفکر میں خود کو بھُلا دیتا ہے