جس شب وُہ شوخ گُل مرا مہمان بن گیا
Poet: شہزاد قیس By: Shahzad Qais, لاہورجس شب وُہ شوخ گُل مرا مہمان بن گیا
میں خود غریب خانے کا دَربان بن گیا
سنجیدگی کی چہرے پہ چادَر تو تان لی
پر دِل ہی دِل میں آخری شیطان بن گیا
میری شریر نظروں کی پرواز تھی بلند
دیکھا جو اُس نے گھور کے اِنسان بن گیا
چومی ہُوئی کلی جو اُسے چومنے کو دی
شرم و حیا کا رُخ پہ گلستان بن گیا
شوخی سے بولے لکھو غزل ہاتھ چوم کر
پر لکھتے لکھتے حُسن کا دیوان بن گیا
سجدہ کرا کے مجھ سے پڑھی خود نمازِ شکر
کافِر بنا کے مجھ کو مسلمان بن گیا
اِک مہ جبیں کے ’’پاؤں‘‘ پہ بیعت کا ہے اَثر
ہر شوخ حُسن میرا قَدَر دان بن گیا
پازیب دِن میں ڈُھونڈ کے لوٹانے جب گیا
وُہ چونکا ایک پل کو پھر اَنجان بن گیا
پڑھ پڑھ کے ہنس رہے ہیں وُہ اَپنی شرارتیں
میرا کلام حُسن کی مسکان بن گیا
اُس اَپسرا نے جونہی خریدی مری کتاب
شہزاد قیس ذوق کی پہچان بن گیا
شہزاد قیس کی کتاب "لیلٰی" سے انتخاب
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






