جس نے اک پل میں میری قیمت چکائی تھی
Poet: AF(Lucky) By: AF(Lucky), Saudi Arabiaدھوپ تھی ، چھاؤں تھی
زندگی تو بس اک ناؤں تھی
سمندر تو جہاں بن گیا تھا
پر جہاں سے بچ گئی تھی کشتی
وہاں پر ہی تو ساری گہرائی تھی
میں تو چل رہی تھی کناروں کناروں
پھر نجانے کس نے مجھے آواز لگائی تھی
میں بھی شاید ! تنہایوں سے تھک گئی تھی
تبی تو میں نے کم پانی میں بھی
اپنی کشتی ڈوبوائی تھی
پر وہ کون سی تھی دنیا
جہاں ڈوب کر بھی میں نے
اک زندگی پائی تھی
وہ ُالجھے ُالجھے راستے
جہاں میں نے بڑے پیار سے
ُاس کے لیے محفلیں سجائی تھی
وہ کون تھا شخص ؟
جس سے دور رہ کر بھی میں نے
خود میں ُاس کی جھلک پائی تھی
وہ تو تھا شہزادہ میری دنیا کا
جس کے آگیے
میں نے اپنی ہستی مٹائی تھی
شاید ! میں تو تھی برسوں سے
صرف ُاسی کی تلاش میں
جس نے اک پل میں میری قیمت چکائی تھی
نا تو کیا کوئی وعدہ ُاس نے
اور نا ہی کوئی پابندی عائد کی مجھ پر
پھر بھی نجانے کیوں میں نے
خود کو مجرم بنا کر
ُاس کے پیار کی ہتھکڑی خود کو پہنائی تھی
پھر نجانے ہوا کیا ؟
کہ پل میں لہجے بدل گیے
کہ پھر بہاروں میں بھی ُاس نے
مجھے خزاں ہی دیکھائی تھی
پر پھر بھی میں ُاس کے ساتھ خوش تھی
نجانے خدا نے ُاس کی صورت کیسی بنائی تھی
شاید ! وہ تھک گیا تھا مجھ سے
تبی تو ُاس نے الزاموں کی مالا
بڑے پیار سے مجھے پہنائی تھی
میں کیسے نہ سر جھکاتی
میں نے ُاس کی آنکھوں میں
کچھ عجیب سی کشکش پائی تھی
تبی تو میں نے خوشی سے
انی گردن ُاس کے آگیے جھکائی تھی
بات کرتے کرتے وہ کہہ گیا یوں تو الوداع
پر بے خبر نے دیکھا ہی نہیں
میری آنکھوں میں کہ
میں نے کب اپنی آنکھوں سے
ُاس کے انتظار کی لکیر مٹائی تھی
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






