جس کو ارضی پہ ڈھونڈو تو وہ عرش بن جاتے ہیں
قریب رہہ کر بھی لوگ کتنے لاغرض بن جاتے ہیں
کسی کے زلف بکھرنے سے آندھی رہتی ہے باخبر
پھر جو شب ڈھلتی ہے تو قفس بن جاتے ہیں
میرے مزاج کو چھوُ گئے تو پھر نہ کتراکے گذرو
تیرے جانے کی چہل سے دل پہ درز بن جاتے ہیں
ماناکہ تبادلے سے ہم حال میں ہی افضل ہیں
کبھی گذرے کل کے ادراک بھی قرض بن جاتے ہیں
حرکت دل ظہور جلووں سے کنارہ ہی نہیں کرتا
نرم اداؤں سے ہم عشق کا دسترس بن جاتے ہیں
ہر شب کو تیری زلفوں سے گہری نہیں سمجھی مگر
یاد میں خواب سلگنے لگیں تو مرض بن جاتے ہیں