جس کے اک تصور میں تھم نہ آیا
وہ تکلیف دیکر میرے وہم نہ آیا
میرے التماس ادھورے رہہ گئے مگر
کبھی حقیر نگاہوں کو رحم نہ آیا
ایک قفس کی مویشی اور کیا کرتی
جب تک عدم امکاں کو فہم نہ آیا
یوں تو ضد کا اسرار یکساں رہتا آیا
گراں بار فہمائش میں وہ اہم نہ آیا
جہاں بے رخیاں ہیں شدت سے
وہاں بھی اس عاشقی کو اسم نہ آیا
اِس نام کے ساتھ خطاب جوڑتے گئے
لیکن میرا مجھ سے کوئی بہم نہ آیا