جلی شمع باب مہ خانہ کھولنے والا ہے
نشہ ایسا چھایہ کہ دل کا دریچہ خانہ کھولنے والا ہے
شہر شہر ہوئے چرچے میرے گناہوں کے
ڈر نہیں جو اک اور افسانہ کھولنے والا ہے
وہ جو بیباک ہوئے سامنے ان کے توبہ
لگ رہا ہے کہ راز برسوں پرانا کھولنے والا ہے
زنجیر کو دیکھا سم کے کچھ بولیے وہ
روک لو ایسے وحشی دیوتا کھیلنے والا ہے
طلسم ہوا تیری پری ذادی اداؤں کا
جو جلی شمع وہاں اک اور پروانا کھیلنے والا ہے
ملی عقل مٹی میں اور سمجھداری ریت میں جا کے ملی
خدایا روک لو ان کو نظروں کا نشانہ کھولنے والا ہے
بیگانوں کی طرح گزرے بادلوں کی طرح آئے امڈ کے لوگ
لگ رہا ہے سامنے قلزم ان کے زمانہ کھولنے والا ہے