درپیش ہے پھر مجھ کو سفر آگ لگی ہے
جل جائے نہ میرا یہ نگر آگ لگی ہے
تنہائی کےصحراؤں میں جل جاؤں نہ تنہا
آجاؤ کہ پھر بارِدگر آگ لگی ہے
ممکن ہی نہیں اب تو کسی اور سے شکوہ
جب اپنی تمناؤں کے گھر آگ لگی ہے
اس بار بھی ہے میرا سخن اس کا نشانہ
الفاظ میں پھر زیروزبر آگ لگی ہے
اک شعلہ ہے حسرت ہے تری یاد کا بادل
برسات ہے یادوں کی مگر آگ لگی ہے
ہوجائے نہ اس بار خزاں میرا مقدر
مغموم ہیں سب برگ وشجر آگ لگی ہے
اے کاش کہ بجھ جائے یہاں شام سے پہلے
جزبات پہ بکھری ہے سحر، آگ لگی ہے
بیٹھی ہوں خیالات کی جس سیج پہ وشمہ
یخ بستہ ہواؤں کا نگر آگ لگی ہے