ماضی میں رہنا ھے تو تم حال بدل ڈالو
پنچھی نہ آب آئیں گے تم جال بدل ڈالو
اپنوں کے نشانوں پر اکثر تم رہتے ھو
گر بچنا ھے ان سے تو تم ڈھال بدل ڈالو
وقت تو گزرے گا پھر غم کے مداؤں میں
مہینے تو وہی ھو نگے تم سال بدل ڈالو
دنیا تو دلدل ھے کیوں خود کو پھنساتے ھو
ان رستوں پہ ناں جانا تم چال بدل ڈالو
خسارے کا سودا ھے عشرت کی سب راتیں
جنت کے ھو اگر داعی تو تم اعمال بدل ڈالو
کسی ویب پر ایک نصیحت اموز نظم پڑھی بے حد پسند آئی ۔
ان صاحب سے معذرت کیونکہ انکا ردیف کافیہ اپنے طریقے سے استعمال کیا ۔ شکریہ