جنوری اب تو ہم کو بھاتا نہیں ہے
خوشی کی نوید لاتا نہیں ہے
الہی زیست کا کوئی سامان کر
یہ جیون گزارہ جاتا نہیں ہے
میں شکستہ پا اور زخم زخم ہوں
کوئےمنزل کوئی ہمت دلاتا نہیں ہے
میرے شانوں پہ پیاروں کا دکھ بڑھتا جارہا ہے
یہ بوجھ اب اٹھایا جاتا نہیں ہے
میں ریزہ ریزہ بکھرتی جارہی ہوں
یہ ٹوٹتاوجودجوڑنےکوئی آتا نہیں ہے
زمیں مجھ پہ تنگ ہوتی جارہی ہے
یہ دکھ کم ہونے آتا نہیں ہے
میرے مولا ہنستی سی نئی دنیا دے دو
زمیں پہ دکھ کا موسم ڈھلنے پاتانہیں ہے