جنوں نے سُوئے تمنا اُچھال رکھا ہے
اس اضطراب نے مجھ کو سنبھال رکھا ہے
جسے یقینِ وفا نے اُجال رکھا ہے
اُس ایک رنگ کو خوشبو میں ڈھال رکھا ہے
یہ کون ہے جو سِوا تجھ سے تجھ میں دکھتا ہے
ہر آئینے میں یہی اک سوال رکھا ہے
اگر ہو پاس بھی کوئی تو کر نہیں سکتا
ترے خیال نے جتنا خیال رکھا ہے
ترے ہی دم سے تو ہے جانِ حسن و رعنائی
یہ خواہشوں میں جو عکسِ جمال رکھا ہے
ہر ایک حرف میں خوشبو اُسی کی آتی ہے
بنا کے پھول جسے ڈال ڈال رکھا ہے
کوئی بھی درد زمانے کا درد لگتا نہیں
کہ تیرے درد کو ہم نے مثال رکھا ہے
یہ فاصلے تو ہیں مہمان چند لمحوں کے
اسی امید نے مجھ کو نہال رکھا ہے
اتر رہی ہے ہر اک سانس میں تبھی خوشبو
ہوا نے وَرۡد سے رشتہ بحال رکھا ہے