بے چین دل کا کوئی چارہ کر لیا جائے
صرف اُسے ہی جینے کا سہارہ کر لیا جائے
مرتے ہیں ہم جن پہ برسوں سے دوستو
اُن دلفریب بہاروں کا نظارہ کر لیا جائے
جن بے بس لمحوں پہ رہے نہ اپنا قابو
اُن بے بس لمحوں سے کنارہ کر لیا جائے
بکتی نہیں جہاں محبت سستے داموں میں
ایسے دلکش بازاروں کا نطارہ کر لیا جائے
جہاں نسبت ہو محبت کی عبادت سے
اُسی مسکن کو اپنا گہوارہ کر لیا جائے
جس پہ ہوتی تھیں سُہانی صبح و شام سجوؔ
زندگی کو اُس ڈگر پہ دوبارہ کر لیا جائے