جو آج وہ میرے سامنے ہوتی
Poet: A.R Ajiz By: Muhammad Ashfaq Raza, Lahoreجو آج وہ میر سامنے ہوتی نہ چاند میں یوں چاندنی ہوتی
ماند پڑ جاتا چاند بھی جب ہر سو میرے چاند کی روشنی ہوتی
یہ تارے یہ ماہ پارے یہ کہکشاں یہ نظارے
نہ ہوتے ہم کو یوں پیارے جو آج وہ میرے سامنے ہوتی
نہ گزرے گا تجھ بن یہ سفر سہنا ہے مشکل غم ہجر
کہتا دکھا دو جلوہ اک نظر جو آج وہ میرے سامنے ہوتی
چہرہ شبنمی گلاب ہو جیسے آنکھیں کسی شاعر کا خواب ہو جیسے
کہتا خیالوں میں آتی ہو ایسے جو آج وہ میرے سامنے ہوتی
کہتا آج رت ہے بڑی مستانی ہم پہ کرو اک اور مہربانی
چلو تو ذرا چال مستانی جو آج وہ میرے سامنے ہوتی
رکتا بہتی ندی کا پانی دیکھ کے تیری چال مستانی
کہتا لگتی ہو کتنی دیوانی جو آج وہ میرے سامنے ہوتی
سمو لیتا دل و جگر میں نقش رہتا میری نظر میں
اتار لیتا آنکھوں کے رستے جگر میں جو آج وہ میرے سامنے ہوتی
زلفوں کی چھاؤں میں بٹھا لے جدائی کے سب غم بھلا دے
کہتا عاجز کو نظروں سے پلا دے جو آج وہ میرے سامنے ہوتی






