ہوئے آسان یہ جیون کہاں سے
یہ کس احساس کو دیکھا عیاں سے
جو اک طوفاں ہے اپنی خامشی میں
جو بن کر آنکھ میں ڈوبا رواں سے
اک اس کی ہی کمی رہتی ہے ورنہ
جو آ نکلا کبھی اس کا جہاں سے
سناؤں کیا میں اپنے غم کے قصے
تمہارے وعدے اب خطرہ دھواں سے
مجھے معلوم ہے رستہ تمہارا
غموں کا دیکھ کر یہ آسماں سے
ہمارا انتظار اب بھی ہے قائم
ابھر آتا ہے دل سویا بیاں سے
ہماری آنکھ میں ہے حسرتِ دید
میں وحشت لے چلی صحرا جواں ہو
اتر کر دل کے آئینوں میں وشمہ
کہیں جھونکا ہوا کا یہ سماں سے