جو سزاوار ہے عشق تو ٹھہرا نہ ایک پل جائے
ہر فرد کا بارودِ محرومی عشق پہ نکل جائے
میں نے جو کہا ٗریکھا میں کوئی تبدیلی آئے
تو رنج یاس میںٗ یاس رنج میں بدل جائے
فکر کے انداز انوکھےٗ تردّد کے کیا ہی کہنے
فکر تردّد سے گرمائےٗ تردّد فکر سے جل جائے
بدحواس کیا اِک عمر سے ادھوری داستانوں نے
جان آئے تو پوری آئے ٗ جائےتو پوری جائے
مجھے گوارہ کیا داد واقعی بجا ہے صبرِ دہر کی
ورنہ کیسے کوئی وقت کے سانچے میں ڈھل جائے