جو مشکلیں خود ہی ٹال دیتا ہے
وہ درد بھی بےمثال دیتا ہے
میں خوش ہوں مالک کی سب عطاؤں پر
وہ کیسے کیسے کمال دیتا ہے
عطائیں کرنے پہ وہ جو آ جاۓ
تو دولتیں لازوال دیتا ہے
ہمارے جیسے فقیر لوگوں کو
وہ شاعری باکمال دیتا ہے
غرور ان میں کہاں سے آتا ہے
وہ جن کو حُسن و جمال دیتا ہے
دلیر ایسا ہے کون دنیا میں
جو اپنے دشمن کو ڈھال دیتا ہے
وہ حُسنِ یوسف جو سامنے آۓ
تو سب کو الجھن میں ڈال دیتا ہے
ستمگری اس کی دیکھو تو باقرؔ
وہ پیار لے کر ملال دیتا ہے