جو ہمارے سفر کا قصہ ہے
وہ تری رہ گزر کا قصہ ہے
صبح تک ختم ہو ہی جائے گا
زندگی رات بھر کا قصہ ہے
دل کی باتیں زباں پہ کیوں لاؤ
گھر میں رہنے دو گھر کا قصہ ہے
کوئی تلوار کیا بتائے گی
دوش کا اور سر کا قصہ ہے
ہوش آ جائے تو سناؤں گا
چشم دیوانہ گر کا قصہ ہے
چلتے رہنا تو کوئی بات نہ تھی
صرف سمت سفر کا قصہ ہے
جیتے جی ختم ہو نہیں سکتا
زندگی عمر بھر کا قصہ ہے
شام کو ہم سنائیں گے تم کو
شب غم کی سحر کا قصہ ہے
تیرے نقش قدم کی بات نہیں
صرف شمس و قمر کا قصہ ہے
دامن خشک لاؤ پھر سننا
یہ مری چشم تر کا قصہ ہے
چند تنکے نہ تھے نشیمن کے
باغ و شاخ و شجر کا قصہ ہے
حلق میں چبھ رہے ہیں کانٹے سے
لب پہ گل ہائے تر کا قصہ ہے
میری بربادیوں کا حال نہ پوچھ
ایک نیچی نظر کا قصہ ہے
اسی بیداد گر سے کہہ دے صباؔ
اسی بیداد گر کا قصہ ہے