جھیل سی آنکھوں کی ادا بہکاتی ہے مجھے
رات ساری یاد کی دہلیز پر جگاتی ہے مجھے
یوں تو پی لیتا ہوں دو چند شرابیں مگر
تیری نگاہ سے پی لوں تو تا دیر مہکاتی ہے مجھے
شبِ تنہائی کے پُرہیبت سناٹے میں اکثر
تیری یاد کی کہکشاں بہت ستاتی ہے مجھے
اظہارِ محبت کے لئے یہ اندازِ بیاں ہے اُس کا
سروں کے اتار چڑھاؤ میں گنگناتی ہے مجھے
روٹھ نہ جاؤں کہیں میں اُس مہ جبیں سے فیصل
بارہا اپنی چاہت کی شدت جتاتی ہے مجھے