جہاں پھولوں کو کھلنا تھا، وہیں کھلتے تو اچھا تھا
Poet: By: saqib, jhelumجہاں پھولوں کو کھلنا تھا، وہیں کھلتے تو اچھا تھا
تمہی کو ہم نے چاہا تھا، تمہی ملتے تو اچھا تھا
کوئی آ کر ہمیں پوچھے تمہیں کیسے بھلایا ہے
تمہارے خط کو اشکوں سے شب غم میں جلایا ہے
ہزاروں زخم ایسے ہیں اگر سلتے تو اچھا تھا
تمہی کو ہم نے چاہا تھا تمہی ملتے تو اچھا تھا
جہاں پھولوں کو کھلنا تھا، وہیں کھلتے تو اچھا تھا
تمہی کو ہم نے چاہا تھا، تمہی ملتے تو اچھا تھا
تمہیں جتنا بھلاتا ہوں تمہاری یاد آتی ہے
بہار نو جو آئی ہے وہی خشبو ہی لائی ہے
تمہارے لب میری خاطر اگر ہلتے تو اچھا تھا
تمہی کو ہم نے چاہا تھا، تمہی ملتے تو اچھا تھا
جہاں پھولوں کو کھلنا تھا، وہیں کھلتے تو اچھا تھا
تمہی کو ہم نے چاہا تھا، تمہی ملتے تو اچھا تھا!
ملا ہے لطف بھی ہم کو حسیں یادوں کی جھلمل میں
کٹی ہے زندگی تم بن مگر اتنی سی ہے دل مین
اگر آتے تو اچھا تھا اگر ملتے تو اچھا تھا
تمہی کو ہم نے چاہا تھا تمہی ملتے تو اچھا تھا
جہاں پھولوں کو کھلنا تھا، وہیں کھلتے تو اچھا تھا
تمہی کو ہم نے چاہا تھا، تمہی ملتے تو اچھا تھا
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






