متاعِ جاں لٹا کر بھی ہمیں قربت نہیں ملتی
کہ جنت کو جہنم میں کبھی وُسعت نہیں ملتی
تجھے لکھنا،تجھے پڑھنا،تجھے ہی سوچتے رہنا
مجھے فرصت کے لمحوں میں بھی اب فُرصت نہیں ملتی
تُو ہوگا بہت حسیں مانا،بھلا ہو چاند کی مانند
مُقابل میرے جاناں کے ، تجھے وقعت نہیں ملتی
مریضِ عشق ہیں یارا! مسیحا تو کوئی ڈھونڈو
غموں سے بھی، دکھوں سے بھی، ہمیں فرقت نہیں ملتی
اجل تو بھاگ کر آجا،کہ بدلا ہے مزاج ان کا
محبت کے تبادل میں ابھی نفرت نہیں ملتی
سماں تو پھٹ ہی جاتا ہے،زمیں بھی دہل پڑتی ہے
تیری جوشیلی نظروں سے مجھے راحت نہیں ملتی
گرفتہ دل،مقید ذہن،شبِ فرقت ،یہ رسوائی
ایسے سستے داموں تو عمرؔ اُلفت نہیں ملتی