جیسے جھرنوں کا آبشار کے ساتھ
ہے تعلق مرا بہار کے ساتھ
تیری یادوں میں ڈھل رہی ہے عمر
عشق و مستی میں انتظار کے ساتھ
پہلی فرصت میں چھوڑ دو کرسی
گر بھی سکتے ہو اپنے بار کے ساتھ
جب پکاروں وہ لوٹ آتا ہے
آزمایا ہے میں نے پیار کے ساتھ
پھول کھلتے ہیں جب بہاروں میں
پھر نبھاتے ہیں خار خار کے ساتھ
میرے چہرے پہ آ گئی جو خزاں
وقت اڑتا رہا غبار کے ساتھ
اک کہانی بیان کر ڈالی
پھر سے وشمہ نے اختصار کے ساتھ
غم کی کَتھّا بیان کر ڈالی
پھر سے وشمہ نے اختصار کے ساتھ