جیون کھیل نہیں جاناں
آگ اور پانی، پھول اور شبنم،دھرتی اور اس نیل گگن کا
کوئی میل نہیں جاناں
جیون خواب نہی جاناں
ہم کو بھی معلوم ہےلیکن اس غم کو سہہ جانے کی
دل میں تاب نہیں جاناں
جیون روگ نہی جاناں
لیکن وہ جو مرہم بن کر ہر اک زخم سلا دیتے تھے
اب وہ لوگ نہیں جاناں
جیون شام نہی جاناں
سورج سے مجبور ہو تم بھی شاید سمت بدل لینے پر
یہ الزام نہیں جاناں
جیون آگ نہیں جانان
اپنی سندرتا کی لو میں اپنے آپ ہی جل جاتے ھیں
جن کے بھاگ نہیں جاناں
جیون دھول نہیں جاناں
تیز ہوا کی آہٹ سن کر شاخ سے اپنی کٹ جائے
یہ ایسا پھول نہیں جاناں