جی نہ پاؤں گا میں اب اے ہم نشیں تیرے بغیر
Poet: خلیلی قاسمی By: خلیلی قاسمی, Indiaجی نہ پاؤں گا میں اب اے ہم نشیں تیرے بغیر
پھونک دوں گا خرمنِ جانِ حزیں تیرے بغیر
تو اگر ہے سب ہی کچھ ہے، تو نہیں کچھ بھی نہیں
شامِ غم بن جاتی ہے صبحِ حسیں تیرے بغیر
تیری ذاتِ ناز سے وابستہ ہے میرا مذاق
ایلوے سے تلخ تر ہے انگبیں تیرے بغیر
در بدر پھرتا رہوں گا کب تلک تیرے لیے
کب تلک کھاتا رہوں گا ٹھوکریں تیرے بغیر
پھول ہیں بے رنگ و بو، صحنِ چمن بے کیف ہے
دَورِ غم ہے دَورِ جامِ آتشیں تیرے بغیر
میری اے جانِ تمنا، میری اے جانِ وفا!
خار ہیں ریحان و سنبل، یاسمیں تیرے بغیر
اور بھی بڑھ جاتا ہے اس وقت یہ احساسِ کرب
بے مزہ پاتا ہوں جب ماہِ مبیں تیرے بغیر
ساری دنیا میں نہیں کوئی بھی غم خوار و انیس
میرا دردِ دل کوئی سمجھا نہیں تیرے بغیر
میری معراجِ تخیل تیرا حسن و عشق ہے
چھوڑ دوں گا شاعری میں، اے نازنیں! تیرے بغیر
جوش پر بحرِ محبت جب بھی آتا ہے مرا
پھوٹ پڑتی ہے نگاہِ شرمگیں تیرے بغیر
صاحبا! مت پوچھ میری چشمِ نم کا ماجرا
تر بتر دامان و جیب و آستیں تیرے بغیر
عین ممکن ہے ترے عہدِ محبت کے سبب
نہ اٹھے میرا جنازہ پھر کہیں تیرے بغیر
تیرے پہلو میں مجھے ذرہ ہے جنت، ورنہ پھر
بے مزہ کل آسمان و زمیں تیرے بغیر
سب سمجھتے ہیں کمی باقی نہیں کوئی، مگر
ویراں ویراں ہے مرا قصرِ حسیں تیرے بغیر
منتظر رہ کر تمہارا رات بھر، آٹھوں پہر
تارے گنتا رہتا ہے اس کا مکیں تیرے بغیر
اب بھی وہ بادِ صبا ہے، اب بھی وہ گلشن مگر
میرے دل کی کونپلیں مرجھا گئیں تیرے بغیر
عزت و الفت کے گہوارے میں جیتا ہوں مگر
پھر بھی رہتا ہوں بہت اندوہگیں تیرے بغیر
حور و غلماں لاکھ ہوئیں اک اگر تو ہی نہیں
کیا مزہ دے گی مجھے خلدِ بریں تیرے بغیر
حسرتِ دیدار ہو یا ہو وہ شوقِ انتظار
خائب و خاسر نگاہِ واپسیں تیرے بغیر
جینے کو جیتا ہوں میں لیکن حقیقت تو یہ ہے
زندگی کے نام پر کچھ بھی نہیں تیرے بغیر
قبلہٴ و کعبہ خلیلی# کا تمہاری ذات ہے
جھک نہیں سکتی کہیں پر یہ جبیں تیرے بغیر
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






