لمحوں کے ہاتھ میں نہ مقدر کے بس میں ہیں
وہ خواہشوں کے بیج جو نفس نفس میں ہیں
راز حیات اور کہیں منزلوں کے بھید
کتنے فریب آپ کے رنگیں قفس میں ہیں
تاریخ بدلنے سے کیا دکھ بھی بدلتے ہیں
پچھلے برس تھے جو وہی اگلے برس میں ہیں
جی چاہتا ہے آپ کا انداز چرا لوں
اب تک تو صرف لفظ میری دسترس میں ہیں