حاصل زیست اشک باری ہے
عمر رو رو کے ہی گزاری ہے
وصل کی شب بھی ہم غریبوں پہ
شب ہجراں سے بڑھ کے بھاری ہے
قصہ غم تو کب کا ختم ہوا
پھر بھی آنکھوں سے خون جاری ہے
خاک آئی بہار گلشن میں
ایک ہیبت چمن پہ طاری ہے
کوئی ہمدم نہ ہو تو جینا بھی
اپنی ہستی پہ ضرب کاری ہے
پھر وہی وحشت وہی واصف
پھر وہی گریہ وہی زاری ہے