بعدمدت کہ مجھے تیرا خیال آیا ہے
اور یاد اتنی ہے کہ آنسو بھی بہے جاتے ہیں
اور حالت پہ میری اتنا زوال آیا ہے
اب مجھے روکو نہیں آنسو یہ کہے جاتے ہیں
ایک ان دیکھی جگہ دیکھی جہاں لوگ بہت
پر نہیں کوئی نہیں ایسا جو اپنا یارو
لوگ ایسے تھے جنہیں سوگ بہت روگ بہت
سب واں تنہا تھے نہیں کوئی بھی ملتا یارو
وہ وقت حال نہیں تھا۔ صدیوں پچھلا
حال اپنا ہے جو اب۔ وہی پرسوں پچھلا
وہی خواب ہیں آنسو ہیں وہی دھوکے ہیں
خواب جو سوچے ہیں پچھلے ہی تو سوچے ہیں
عشق بھی پچھلا محبت بھی پرانی جاناں
عمر بھر رہتی کہاں ساتھ جوانی جاناں
عشق مجنوں نے کیا تھا جو وہ اب خواب نہیں
بس کرو یار مجھے عشق کی اب تاب نہیں