قسمت کی ہتھیلی پہ ضیا پھوٹ رہی ہے
حرفوں میں مرے شاخِ دعا پھوٹ رہی ہے
اترے ہیں مرے بام پہ رحمت کے فرشتے
ہے وقتِ سحر ،یادِ خدا پھوٹ رہی ہے
گاتے ہیں سبھی تیری حضوری کے ترانے
گھر گھر سے محبت کی ضیا پھوٹ رہی ہے
دریا میں ہیں کس باد مخالف کے تھپیڑے
ہر سمت سے نفرت کی ہوا پھوٹ رہی ہے
کب سے ہوں میں اس شہر فسوں کار میں حیراں
ہر سو جو رقابت کی وبا پھوٹ رہی ہے
ہے دھوپ کی شدت کا بھی احساس اگرچہ
چڑیوں کے چہکنے کی صدا پھوٹ رہی ہے
وشمہ بھی ہے صحرائے مسافت میں اکیلی
اور راہ میں کالی سی گھٹا پھوٹ رہی ہے