چمن گیا نہ گئی پر، بہار کی حسرت
کبھی نہ پوری ہوئی دید یار کی حسرت
ابھی تلک ہے اسی گلزار کی حسرت
کہ باقی رہتی ہے دل میں قرار کی حسرت
تمھارا قرب میسر ہو جن میں ہر ساعت
ہمیں ہے ایسے ہی لیل و نہار کی حسرت
ہو تو خون غریبوں کا چوستے ہیں سب
ہو جن کے دل میں نہاں اقتدار کی حسرت
ہمارے سر کو ہے تاج شہی کی خواہش کب
ہے راہ یار کے گرد و غبار کی حسرت
تیری گلی میں رہوں بن کے گرد کی صورت
یہی ہے میرے دل بے قرار کی حسرت
ہمارے نام کو لکھنا سدا سر فہرست
اگر کبھی ہو کسی جانثار کی حسرت
کبھی تو بات کرو مسکرا کے رومی سے
فقط اسے ہے بس اک حرف پیار کی حسرت