چاند مدھم ہے بڑھ گئے ہالے
دل سنبھلتا نہیں ہے سنبھالے
دیکھتا ہی نہیں تڑپتا وہ
درد سینے میں کوئی کیا پالے
ہم تو تیار ہیں گزرنے کو
آگ تھوڑی سی اور دھکا لے
اے میری روح جلدباز نہ بن
ظلم کچھ اور حسن فرما لے
عجیب حال ہے اہل جنوں کا
لب پہ مسکان ۔ پاؤں میں چھالے
عشق اتنا بھی ضروری کب ہے
آدمی زندگی کو گہنا لے
تو نے دو حرف بھی روا نہ کئے
ہم نے روح تک میں تیرے غم پالے
راستہ تک رہی ہیں تعبیریں
میرے سانچے میں خواب کو ڈھالے
تیرا موہوم سا خیال آیا
آنکھ میں گھومنے لگے جالے
شمع کی روشنی کا کیا کہنا
اک شرر ہے ہزار متوالے
شکوہ کرنا ہماری ریت نہیں
کھولیں گے نہ زبان کے تالے
جانا چاہو تو ہم نہ روکیں گے
اور کچھ دن جنوں کو مہکا لے
اتنا چاہا ہے ٹوٹ کر تجھ کو
قیس بھی دیکھ لے تو غش کھا لے
تیرا آنا ہی تھا مے خانے میں
مے کے وجدان سے گرے پیالے
آج لفظوں پہ لہر آئی ہے
حسن جو چاہے مجھ سے لکھوا لے