آئینوں کو تو نہ بے حال کرو
حسن والو ذرا خیال کرو
دے کے سارے جواب آنکھوں سے
کہہ رہے ہو کوئی سوال کرو
رخ چھپاؤ نہ ابھی آنچل میں
گلستاں کو نہ پر ملال کرو
تم ہو تخلیق کا اچھوتا پن
چاند کے سامنے مثال کرو
خواب لہروں میں اڑا دو زلفیں
وحشتوں پر کوئی تو ڈھال کرو
اپنے دامن کا سہارا دے دو
تتلیوں کو ذرا نڈھال کرو
اب کہاں پاؤ گے وجود اپنا
اب تمنائے ماہ و سال کرو
کس نے ڈالا ہے راہ الفت پر
کم از کم تم نہ یہ سوال کرو